Menu Bar

Drop Down MenusCSS Drop Down MenuPure CSS Dropdown Menu

نيوز ٽڪر

قادياني اسلام ۽ پاڪستان جا مجرم ***ابوعمير حزب الله بلوچ

پاڻيءَ جي نعمت خطاب : فضيلة الشيخ ذوالفقار علي طاهر رحمھ الله

Wednesday, January 8, 2020

کالاکوٹ بمقابلہ سفید کوٹ؛نصاب کس کا تبدیل ہو ؟

تحریر ۔۔ فضیلۃ الشیخ عبدالصمد المدنی حفظہ اللہ


الحمد للہ والصلاۃ والسلام علی رسول اللہ وعلی آلہ واصحابہ اجمعین اما بعد  ۔
قارئین کرام السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
لاہور کے المناک سانحے نے انسانیت کا سر شرم سے جھکا دیا۔ایسا تو دشمن حالت جنگ میں بھی نہیں کرتا تا۔۔۔چشم فلک نے یہ دل خراش اور روح فرسا منظر دیکھا جب قانون کی ڈگریاں حاصل کرنے والے کالے کوٹ میں ملبوس وکلاء نے بھوکے درندوں کی طرح لاہور میں دل کے ایک ہسپتال پنجاب کارڈیولاجی پر ایک منظم حملہ کردیا  وہ ہسپتال جہاں مختلف امراض قلب میں مبتلا مریض زندگی و موت کی کشمکش میں تہے ۔ ہسپتال میں ان وکلاء نے توڑ پھوڑ کی۔ مریضوں اور عملے کوزدوکوب کیا۔ چھ  قیمتی جانیں  تک ضائع ہوگئیں جبکہ زخمیوں کی تعداد درجنوں تک
بتائی گئی ہے۔ کروڑوں کی مشینری کو تہس نہس کردیا۔  کئی ایک گاڑیوں کو نذرآتش کردیا۔ قانون کے محافظ بے بس نظر آئے  ہسپتال میدان جنگ بنا رہا۔ تقریبا چھ گھنٹے تک یہ مکروہ کھیل چلتا رہا اس دوران وزیر اطلاعات پنجاب فیاض الحسن چوہان آئے لیکن بپھرے وکلاء نے انہیں بھی آڑے ہاتھوں لیا۔ وزیر صحت پنجاب ڈاکٹر یاسمین راشد بھی ہسپتال کے گیٹ پر تقریبا آدھا گھنٹہ کھڑی رہیں لیکن ان کے لئے بھی بند دروازہ نہیں کھولا گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایسے ہی وکیلوں کے بارے میں کہا گیا ہے ۔۔

پیدا ہوئے وکیل تو ابلیس نے کہا

لو آج ہم بھی صاحب اولاد ہو گئے
یہ وحشیانہ عمل اور جاہلانہ حرکت کیوں کی گئی ؟؟ اخباری رپورٹ کے مطابق دو تین وکلاء کسی سلسلے میں پنجاب کارڈیالوجی ہسپتال گے۔ اس دوران ان کی ڈیوٹی پر موجود ڈاکٹر سے تو تکار ہوگئی۔ بات مارکٹائی تک پہنچ گئی۔ اس کی خبر وکلاء برادری کو ملی تو فوری ردعمل میں ہڑتال کردی گئی اور سڑک بند کر کے مقدمے کا اندراج کر کے ڈاکٹروں کی گرفتاری کا مطالبہ کیا گیا ۔۔۔

آئی جی نے وکلاء کے دباؤ پر دہشت گردی کی دفعات کے تحت مقدمہ تو درج کرلیا مگر ڈاکٹروں کی گرفتاری عمل میں نہ لائی گئی۔ اس کی دو وجوہات ہو سکتی ہیں۔۔
پہلی وجہ یہ کہ۔ پولیس نہیں چاہتی تھی کہ ڈاکٹروں کو گرفتار کرے اور وہ پنجاب کارڈیالوجی ہسپتال کو بند کر دیں۔۔۔۔۔
 دوسری وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ۔ اگر ڈاکٹروں کو گرفتار کیا جاتا تو لازما ریمانڈ کے لئے کچھری لے جایا جاتا۔۔ جہاں وکلاء کی طرف سے رد عمل اور تشدد کا خطرہ تھا۔ سو اس معاملے کو ٹالا جاتا رہا۔۔
بہرحال اسباب کچھ بھی ہو لیکن اس وحشیانہ طرز عمل کی کوئی منطقی توجیہ نہیں  کی جاسکتی۔ پھر یہ اس ملک میں کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے بلکہ یہ ان واقعات کا ایک تسلسل ہے جو آئے روز ہمارے معاشرے میں جنم لیتے رہتے ہیں۔ اپنے پیشے کو اہم اور اپنے پیٹی بھائیوں کی اندھی وکالت اور ہر جرم میں ان کا ساتھ دینا۔۔۔۔۔ یہ وہ المیہ ہے جو اس٫ متمدن اور تعلیم یافتہ سماج؛ کو دور جاہلیت سے بھی بد تر بنا دیتے ہیں. کسی ایک وکیل کے خلاف کوئی ٹریفک کانسٹیبل؛ کوئی ڈاکٹر۔ کوئی دکاندار یا کوئی راہ چلتا شخص زیادتی کرے تو سب سے پہلے بار ایسوسی ایشن کچہری کو بند کرنے کا حکم جاری کرتی ہے۔ عدالتوں کا بائیکاٹ کردیا جاتا ہے۔ مقدمات کی سماعت کو زبردستی رکواکر مطالبات داغے جاتے ہیں۔ دوسری طرف یہی حال ڈاکٹروں کا بھی ہے۔۔
بدقسمتی سے ڈاکٹر بھرتی ہونے والے اس غلط فہمی میں مبتلا ہوجاتے ہیں کہ وہ اب ہسپتال کے سیاہ و سفید کے مالک ہیں۔ وہ ذرا ذرا سی بات پر ہسپتال کو تالے لگا دیتے ہیں۔ گیٹ بند کر دیتے ہیں مریضوں کو بے یارومددگار چھوڑ دیتے ہیں۔ کوئی اونچی آواز سے پوچھ لے کے بھائی یہ تم کیسے کر سکتے ہو؟ تو اس کو پھینٹی لگا دیتے ہیں۔ یہ سب کرتے ہوئے وہ اپنے حلف اپنے فرائض اور اپنی ذمہ داریوں کو یکسر فراموش کر جاتے ہیں۔
 اس سانحے کے متعلق ایک تلخ حقیقت تو یہ بھی ہے کہ یہ مختلف تنظیموں اور انجمنوں کی صورت میں وجود پانے والے مختلف طبقات وہِ مافیاز ہیں جو معاشرے میں غنڈہ راج اور دہشت گردی کو فروغ دے رہے ہیں۔ انہوں نے تعلیمی اداروں ہسپتالوں عدالتوں اور مختلف شعبہ ہائے زندگی کو تباہ و برباد کرکے رکھ دیا ہے۔ بجائے حق اور انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے کے ہر اتحاد اور انجمن اپنی برادری کے مفادات کو ہی مقدم کرتا ہے۔ جہاں پر یہ مجبور ہو جائیں یا ان کے پیشے کا کارڈ نہ چلے تو وہاں پر غنڈہ گردی پر اتر آتے ہیں۔ اور پورے سسٹم کوہی یرغمال بنا دیتے ہیں۔۔
 اور قانون ان کے آگے گھٹنے ٹیک دیتا ہے ان کے اس گھمسان کے رن میں خون عام لوگوں کا بہتا ہے۔ لیکن اس تمام کے باوجود بھی ان طبقات کے مقام و مرتبے پر کوئی آنچ نہیں آتی۔۔
فواد چوہدری فیاض الحسن چوہان اور ان کے چند دیگر ہم نواحضرات سے سوال ہے بتائیے کہ جہالت کی فیکٹریاں  کہاں ہیں؟؟ کیا مدارس ہیں جہاں سے قرآن و حدیث اور سیرت طیبہ کی روشنی میں  اخلاق اور کردار کی تعمیر ہوتی ہے حقیقی انسان بنایا جاتا ہے یا آپ کے قائم کردہ ( ہارورڈاور کیمرج یونیوز سیٹز) یہاں پر صرف اپنے خسیس مفادات۔جاہ ومنصب اور مال و دولت ہی مقصود اور مطلوب ہیں انسانیت۔ اخلاقیات اور آداب کی  کوئی حیثیت نہیں۔۔
 آج تک کسی مدرسے والوں نے کسی ہسپتال پر حملہ نہیں کیا۔ سڑکیں بلاک نہیں کیں ایمبولینس سروس کو نہیں روکا۔ ایک ٹائر تک نہیں جلایا بلکہ جب بھی اس ملک و قوم پر کوئی مشکل وقت آئے۔ یہ پیش پیش ہوتے ہیں اپنی جانوں تک کے نذرانے پیش کرتے ہیں۔ ویلفیئر اور فلاح اور بہبود کادہ کام  کرتے ہیں جس  میں انسانیت کو ہی پیش نگاہ رکھتے ہیں سیلابوں اور زلزلوں کی تاریخ اٹھا کر دیکھیں یقین آجائے گا یہ پاکیزہ اقدار ان کو اس نصاب نے سکھائی ہیں جس پر قرآن وحدیث کا نور ہے اور وحی الہی کی روشنی میں ہے۔
اب ایمانداری سے بتائیے کہ کس کے نصاب کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے ؟ کہاں سے جہالت کے مہیب سائے پیدا ہوتے ہیں اور جہالت کی فیکٹریاں کہاں ہیں ؟؟ اور ان  فیکٹریوں کو خام مال کہاں سے ملتا ہے ؟؟

ارباب اقتدار کو ہمارا مخلصانہ مشورہ ہے کہ مدارس کے نصاب سے فائدہ اٹھائیں سکولوں کالجوں اور یونیورسٹیوں کے تمام مراحل میں التربیۃ الاسلامیہ کے نام سے ایک سبجیکٹ لازمی طور پر شامل نصاب کریں جس میں قرآن وحدیث اور محسن انسانیت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کو پڑھایا جائے اس سلسلے میں جید علماء کرام پر مبنی ایک بورڈ تشکیل دیا جائے۔ کیونکہ تربیت کے بغیر حاصل ہونے والے علم سے انسانیت کو کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا الٹا نقصان  ہی حاصل ہوگا سچ ہے کہ ۔۔۔۔۔۔

آدمیت اور شے ہے علم ہے کچھ اور شے
کتنا طوطے کو پڑھایا پر وہ حیواں ہی رہا۔۔۔۔

ماخوذ دعوت اہلحدیث دسمبر 2019
طالب دعا
  A..M..S.

0 تبصره :

جيڪڏهن ممڪن هجي ته پنهنجو تبصرو موڪليو

اهم اطلاع :- غير متعلق، غير اخلاقي ۽ ذاتيارت تي مشتمل تبصرن کان پرهيز ڪريو. انتظاميه اهڙي تبصري کي ختم ڪرڻ جو حق رکي ٿي. هوئن به خيالن جو متفق هجڻ ضروري ناهي.۔ جيڪڏهن توهان جي ڪمپيوٽر ۾ سنڌي ڪيبورڊ انسٽال ٿيل ناهي ته سنڌي ۾ تبصرو لکڻ لاءِ هيٺين خاني ۾ سنڌي لکي ڪاپي ڪريو ۽ تبصري واري خاني ۾ پيسٽ ڪري پبلش بٽڻ تي ڪلڪ ڪريو.۔